12 مئی 2017 - 01:31
سید حسن نصراللہ: بن سلمان جان لے کہ امام مہدی(ع) کا ظہور قطعی طور پر مکہ مکرمہ سے ہوگا

قائد محاذ مزاحمت و معتمد عام حزب اللہ لبنان سید حسن نصر اللہ نے اپنے ایک کمانڈر مصطفی بدرالدین "ذوالفقار" کی شہادت کی برسی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقوام اور مزاحمت تحریکوں کی شکست کا زمانہ گذر چکا ہے/ بن سلمان کو جان لینا چاہئے کہ مکہ مکرمہ سے امام مہدی علیہ السلام کا ظہور قطعی اور یقینی ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ مصطفی بدرالدین شام میں حزب اللہ کے کمانڈر کی حیثیت سے صہیونی ـ تکفیری قوتوں کے خلاف لڑتے ہوئے ایک سال قبل سلفی دہشت گردوں کی روایتی بزدلانہ کاروائی میں ایک دہشت گردانہ حملے میں شہید ہوئے تھے اور ان کی شہادت پر بیک وقت ریاض ـ انقرہ ـ اور تل ابیب میں جشن سرور منایا گیا تھا۔
کل مورخہ 11 مئی 2017 بروز جمعرات ان کی پہلی برسی منائی گئی جس میں تلاوت کلام اللہ مجید کے بعد شہید بدرالدین کے فرزند نے اور پھر سید مقاومت نے خطاب کیا۔
سید حسن نصر اللہ نے اس شہید سعید کے کردار، جانفشانیوں، شجاعت اور نہایت مؤثر اقدامات کو خراج تحسین و عقیدت پیش کیا اور کہا کہ شہید بدرالدین کی شہادت کو ایک سال کا عرصہ گذرا ہے لیکن وہ آج بھی ہماری یادوں میں زندہ ہیں اور لبنان کی اسلامی مزاحمت تحریک ان کی تدبیر و شجاعت کی روشنی میں اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ شہید ذوالفقار نے لبنان سرزمین کی صہیونیوں سے آزاد کرانے اور صہیونی ریاست کی قید میں لبنانی اسیروں کی آبرومندانہ واپسی کے لئے کی جانے والی کاروائیوں میں کمانڈر کے طور پر نہایت بنیادی کردار ادا کیا تھا۔
انھوں نے کہا: شہید ذوالفقار 1996 میں اسرائیل کے خلاف ہونے والی نہایت اہم کاروائی "غضب کے خوشے" کے کمانڈر تھے اور برسوں تک لبنان میں لبنانی مقاومت کے آپریشن کمانڈر کے طور پر کردار ادا کرتے رہے تھے اور صہیونی دشمن عرصہ دراز سے انہیں دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنوا کر منظر عام سے ہٹانے کے درپے تھا۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا: حالیہ ایام میں معلوم ہوا کہ اسرائیلی دشمن الناقورہ اور ساحل سے لے کر جبال الشیخ تک کنکریٹ کی ایک اونچی دیوار بنانے کے اپنے منصوبے پر عملدرآمد کرنا چاہتا ہے جس سے واضح ہوگیا کہ اقوام عالم اور مزاحمت تحریکوں کی شکستوں کا زمانہ گذر چکا ہے اور اسرائیل نہ صرف لبنان اور غزہ پر مزید کوئی حملہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا بلکہ دیواری کھڑی کرکے اپنے بچاؤ کی تدبیریں کررہا ہے؛ اسرائیل شکست کھا چکا اور اب دیواریں کھینچنے لگا ہے، یعنی عظیم تر اسرائیل کا خواب چور چور ہوگیا اور وہ خوفناک اور جلال و جبروت کی مالک حکومت کا منصوبہ نفاذ سے پہلے ہی اختتام کو پہنچا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل مستقبل قریب سے بھی ڈرتا ہے اور مستقبل بعید سے بھی؛ 1948 کے بعد سے لبنان ہمیشہ اسرائیل سے خائف رہتا تھا، فکرمند تھا اور خوف سے کانپتا تھا جبکہ اسرائیل کے پاس طاقت بھی تھی اور وہ مسلط بھی تھا لیکن آج
آج اسرائیل کو اسلامی مزاحمت تحریک کے آگے پے درپے ناکامیوں سے دوچار ہوکر اپنے ارد گرد دیواری تعمیر کرنے لگا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ غصب شدہ سرزمین میں واقع یہودی نوآبادیوں کے باشندے بھی اور اسرائیلی فوجی بھی، خوفزدہ ہیں۔ آج اسرائیل خوفزدہ ہے۔
سید مقاومت نے کہا: اسرائیل مسقتبل میں ہر قسم کی جھڑپوں سے خوفزدہ ہے اور مزاحمت تحریک کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی دھمکیوں کی بنیاد دشمن کی کمزوریوں پر استوار نہیں ہوتیں اور اس کی باتیں مخالف فریق کے موقف کی خاطر نہیں ہوتیں، اسرائیلی جانتے ہیں کہ مستقبل میں کوئی بھی جھڑپ اور کوئی بھی جنگ ہوگی تو مقبوضہ فلسطین کے اندر ہوگی۔
حزب اللہ کے معتمد عام نے کہا: تم [اسرائیلی اور اسرائیل کے حامی] عوام کو کیوں ہراساں کرتے ہو، میں لبنانی عوام اور لبنان میں رہنے والوں سے کہتا ہوں کہ اپنی معمولی کی زندگی گذارنے کا عمل جاری رکھیں؛ کیونکہ صہیونی اور صہیونیوں کے حامیوں کی دھمکیاں غیر سنجیدہ ہیں؛ دشمن نے نفسیاتی جنگ کا سہارا لیا ہے۔ اللہ پر توکل کرو، جس نے مختلف مقامات پر آپ یو کامیاب و کامران کردیا ہے۔ [لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ۔ (سورہ توبہ / 25)] ایسے بہت سے سنجیدہ مسائل موجود ہیں جو اسرائیل کو جنگ سے باز رکھتے ہیں اور پھر 2006 کی 33 روزہ جنگ نے اسرائیل پر نہایت گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔
انھوں نے صہیونی جیلخانوں میں فلسطینی اسیروں کی بھوک ہڑتال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہم ان اسیروں کی استقامت کے آگے سر خم کرکے تعظیم کرتے ہیں اور فلسطینی قوم پر ڈھائے جانے والے مظالم اور اسیروں کی صورت حال کے آگے عرب لیگ، عرب ریاستوں، عالمی برداری اور ان مظالم کے سامنے خاموشی اختیار کرنے والی بظاہری انسان دوستانہ تنظیموں اور اداروں کی مجرمانہ خاموشی کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ جبکہ فلسطینی قوم اس قدر مظلومیت کے باوجود اپنی جانفشانیوں کو جاری رکھی ہوئی ہے۔
انھوں نے اگلے چند روز میں عرب ممالک اور امریکہ کے سربراہوں کی ملاقاتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے: اگلے دن بتا ہی دیں گے کہ ان نشستوں کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؛ واضح ہوگا کہ ان مذاکرات میں فلسطینی اسیروں کا کتنا حصہ ہے؟ کیا عرب فرمانرواؤوں اور حکمرانوں میں اتنی جرات ہے کہ ٹرمپ سے فلسطینی اسیروں کے بنیادی حقوق کی بحالی کے سلسلے میں بات چیت کریں یا پھر اپنی خاموشی کو جاری رکھیں گے؟ واضح ہوجائے گا کہ عرب حکمران اپنی شکستوں کی فرہنگ کو پھر بھی محفوظ رکھتے ہیں یا پھر کوئی دسرا راستہ اپناتے ہیں؟
سید حسن نصر اللہ نے شام کے ساتھ لبنان کی مشرقی سرحدوں کی مثبت صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ سرحدیں بہت زیادہ پرامن ہوچکی ہیں، ہم نے ماہ و سال اس سرحد پر گذارے، ہمارے افراد شہید ہوئے اور انھوں نے مل کر بےشمار تکفیری دہشت گردوں کو جہنم رسید کیا اور مزید ان سرحدوں پر ہماری موحودگی کی ضرورت نہیں ہے۔
انھوں نے کہا: الطفیل سٹی لبنان کا ایک شہر ہے جس تک پہنچنے کے لئے کوئی مناسب راستہ نہیں ہے چنانچہ لوگوں کو الطفیل کا سفر اختیار کرنے کے لئے پہلے شام جانا پڑتا ہے۔ الطفیل پر صہیونی ـ سعودی تکفیریوں نے حملہ کیا تو یہاں باشندے علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور اب یہ علاقہ پرامن ہے اور ہم الطفیل کے باشندوں سے کہتے ہیں کہ اپنے گھروں کو لوٹیں اور ہاں یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ انہيں اپنے شہر میں واپس لے جائے اور ہم بھی اس سلسلے میں ہر قسم کی مدد فراہم کرنے کے لئے تیار ہیں۔
سیکریٹری جنرل حزب اللہ لبنان نے شام کے مختلف شہروں سے مذاکرات کے نتیجے میں دہشت گردوں کے انخلاء کے بارے میں عرب ـ ترک پروپیگنڈوں کی شدت سے تردید کی اور کہا: ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ ان شہروں کی آبادی کا ڈھانچہ تبدیل کیا جارہا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ جو مسلح دہشت گرد ٹولے ان شہروں میں آبسے تھے نسل، قوم اور مذہب کی بنیاد پر عوام کی نسل کشی کررہے تھے اور انہیں سعودی عرب، ترکی، قطر اور امریکہ کی حمایت حاصل تھی اور اب وہ بھی ان شہروں سے نکلنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
انھوں نے کہا: اگر ہم "بعلبک الہرمل" میں آبادی کا ڈھانچہ بگاڑنے کا ارادہ رکھتے تو جبہۃ النصرہ اور داعش کو اس علاقے میں داخل ہونے دیتے، وہ آکر لوگوں کو مارتے، شہر کو نیست و نابود کرتے اور ہم شہر پر حملہ کرکے ان دہشت گردوں کو نیست و نابود کرتے اور یوں شہر بھی نابود ہوجاتا اور آبادی بھی چلی جاتی اور توازن بھی بگڑ جاتا جبکہ ہم کبھی بھی ایسا نہیں کرتے اور دشمن بوکھلا کر اپنی سازشوں کور غیر انسانی اقدامات کو ہمارے سر تھونپ رہا ہے!
انھوں نے قراقستان کے آستانہ میں روس ـ ایران ـ ترکی اتفاق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہم مفاہمت کے نتیجے میں ہونے والی جنگ بندی کا خیرمقدم کرتے ہيں اور ایران اور مزاحمت تحریک ہرگز اس مفاہمت کو نقصان پہنچانے کا ارادہ نہيں رکھتے اور دشمنان انسانیت کی طرف سے اس طرح کے پروپیگنڈے جھوٹے اور بےبنیاد ہیں۔
انھوں نے کہا: جس جنگ بندی کو حکومت شام کی حمایت حاصل ہو ہم بھی اس کی حمایت کرتے ہيں۔
انھوں نے کہا: ہم شام میں خونریزی سے بچنے کے ہر موقع کو غنیمت سمجھتے ہیں اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں، لہذا جہاں بھی جنگ بندی ہو ہم حمایت کرتے ہیں۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا: جہاں بھی ہماری ضرورت ہوگی ہم وہاں جاضر ہونگے، ہمارے حلیفوں کے بہت اعلی سطحی یکجہتی پائی جاتی ہے، آج ہم بہت حساس مراحل میں داخل ہوئے ہیں اور مسلح دہشت گرد ٹولوں کی حالت بہت ہی خراب ہے، اور شامی افواج اور تحریک مزاحمت کو ہر محاذ پر غلبہ حاصل ہے اور شام کے جنوب اور شمال میں، نیز عراقی سرحدوں پر کچھ تبدیلیاں آئی ہیں۔
۔۔۔۔۔
سید حسن نصر اللہ نے حال ہی میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں سعودی نائب ولی عہد، وزیر دفاع محمد بن سلمان آل سعود کی ہرزہ سرائیوں کی طرف اشارہ کیا ـ "جس نے کہا تھا کہ ایران عالم اسلام میں فرقہ واریت کو فروغ دینے کے درپے ہے" ـ اور کہا: امام مہدی علیہ السلام کا عقیدہ مذہب اہل بیت(ع) کے لئے مختص نہيں ہے، تمام مسلمانوں کے درمیان اس سلسلے میں اجماع ہے؛ امام مہدی علیہ السلام اہل بیت علیہم السلام کی ذریت سے ہیں اور بہر صورت مکہ مکرمہ سے ظہور فرمائیں گے۔
سیدالمقاومہ نے کہا: سعودی حکمرانوں کی اس طرح کے توہمات کسی طور بھی اللہ کی قضا و قدر پر نظرانداز نہیں ہوتے۔
انھوں نے کہا: بن سلمان نے اپنے حالیہ انٹرویو میں بےشمار خطاؤں کا ارتکاب کیا ہے، لیکن ایران کے بارے میں اس کے موقف کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ ایران کے نام کے کسی عام ملک کا دشمن ہے، وہ ایسے ایران کا دشمن ہے جو امام مہدی صاحب الزمان کے ظہور کا انتظار کررہا ہے۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا: میں بن سلمان آل سعود سے کہتا ہوں کہ "امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا عقیدہ مسلمانوں کے عقائد کے عین مطابق ہے، امام مہدی بہر صورت مکہ مکرمہ سے ظہور فرمائیں گے اور امر مسلّم ہے کہ امام (ع) بیروت، تہران یا دمشق سے ظہور نہیں کریں گے۔
انھوں نے سعودی سلطنت کے کئی بڑے عہدوں پر قابض ہونے کے باوجود محمد بن سلمان کی نادانی اور لاعلمی پر کڑی نکتہ چینی کی اور کہا: کوئی جاکر اس شخص کو کچھ دینیات سکھا دے، اور سمجھا دے کہ امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے موضوع پر تمام مسلمانوں کے درمیان اجماع پایا جاتا ہے اور یہ موضوع صرف شیعیان اہل بیت کے لئے مختص نہیں ہے۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا: ویسے تو بن سلمان کا دعوی ہے کہ ایران کے ساتھ اس کا اور اس کے خاندان کا اختلاف محض سیاسی اختلاف ہے جبکہ اس کا یہ دعوی بےجا اور بےبنیاد ہے اور اس ایران کے ساتھ اس کا جھگڑا مذہبی اور اعتقادی ہے۔
سیکریٹری جنرل حزب اللہ لبنان، قائد مقاومت اسلامی جناب سید حسن نصر اللہ نے آخری میں کہا: جب امام آئیں گے تو نہ کوئی ظالم و جابر حکمران رہے گا، نہ کوئی فاسد و بدعنوان حکمران رہے گا، بلکہ وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے اور جان لو اے  بن سلمان: نہ تو، نہ تیرے باپ دادا، سب مل کر بھی اس حقیقت کو تبدیل نہیں کرسکتے ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۱۰